یہ کِسی شاعر کی ایک نظم کی ایسی کہانی ہے جو بہت دل گیر بھی ہے اور بھی ناقابلِ یقین بھی۔ مگر کیا کہیں۔ اُن کے ساتھ جو کچھ بھی ہُوا اُس کی ذمہ دار تو اُن کی اپنی شاعری ہی ہے یا پھِر وہ جِس کے لیے شاعری کی۔ آپ خود ہی ملاحظہ فرما لیجیے اور فیصلہ بھی کر لیجیے
ہوا یوں کہ ایک رات اُنہوں نے ایک نظم لکھی ، سخت سردی کا موسم تھا۔ صبح نُور کے تڑکے مکمل ہوئی۔ اب ساڑھے تین بجے الصبح ، کئی لوگ تو رات ہی سمجھتے ہیں، انسان کس کو سنائے اور کیسے سُنائے یہ ایک الگ فن ہے اور ہر شاعر کا اِس میں طاق ہونا بہت ضروری ہے۔ اِس لیے کہ اگر نہ سُنائے تو گھُٹ کر اُس کا دم بھی نِکل سکتا ہے۔ کیونکہ شعر قید نہیں کیے جا سکتے۔ وہ تو آزاد پیدا ہوتے ہیں۔ خوشبُو کی طرح ، جسے پھول سے نکلنے کے بعد پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پتھر پر پڑے اُس بیج کی طرح ، جسے نمی ملنے کے بعد پھوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی طرح شعر کے بھی “ہونے” کے بعد ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کِسی کو سنایا نہ جائے۔ اِسی لیے تو شاعروں کے لطیفے بنتے ہیں۔ بس اُن کا ایک شعر آپ سُن لیں یا ایک شعر کی فرمائش کر دیں تو پھر اُن سے جان چھڑانی مُشکل ہو جاتی ہے
اِسی بات کے بہانے یہ شعر بھی ملاحظہ فرما لیجیے
فرمائش شعر کی آئی ہے ، دیوان میرا پکڑا دو تُم
بھاگ نہ جائیں سُننے والے کُنڈی بھی لگا دو تُم
ہاں! مگر! اگر کوئی با ذوق انسان مِل جائے تو وہ خود شعر کے پیچھے پیچھے شاعر تک پہنچ جاتا ہے جیسے خوشبُو کے پیچھے بھنورا ، پھول تک ، دیوانہ وار!
اگر کوئی اور ملے تو شاعروں کے لطیفوں میں ایک اور کا اضافہ! یہ اضافہ عقل والے وہ لوگ کرتے ہیں جن کا عشق اور دیوانگی کے ساتھ شاید کوئی تعلق نہیں ہوتا! یا شاید بے انتہا عشق والے لوگ جو اپنے لطیفے خود ہی بناتے رہتے ہیں۔
اب آپ ہی کہیے کہ کڑاکے کی سردی ہو اور آپ دو رضائیاں اوڑھے گرم بِستر میں خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوں۔ وقت بھی ملاحظہ ہو، ساڑھے تین بجے الصبح ، یعنی کہ آدھی رات کو ، اور آپ ہی کا کوئی چاہنے والا آپ کے گھر کی گھنٹی بجا دے اور جواب نہ آنے پر تسلسل سے بجاتا ہی چلا جائے یا پھر شعر سُنانے کی ایمرجنسی میں گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ کر اُس کی آواز کو آپ کے کانوں میں رواں کر دے بلکہ رواں دواں کر دے اور آپ مجبوری کے عالم میں اُٹھ کر موسم کی بے رحمی اور اپنی حالتِ زار پر غور فرما کر بے وقت آنے والے مہمان کی مجبوری کا اندازہ لگاتے ہوئے دروازہ کھول کر دیکھیں تو پتا چلے کہ ایک شاعر صاحب ہاتھ باندھے التجا کر رہے ہیں کہ میرے دو چار شعر تو سُن لیجیے تو پھر سوچیے کہ آپ کیا کریں گے۔
میرے خیال میں یا تو آپ اندر سے بندوق لِے کر آئیں گے یا پھر آپ اپنے گھر کے سامنے ، وہیں ، اُسی وقت مشاعرہ شروع کر دیں گے ۔ جو آہستہ آہستہ گرم ہوتا جائے گا۔ مگر اس دفعہ شاعر آپ ہوں گے اور بے چارے شاعر صاحب سامع! اور اڑوس پڑوس کے لوگ تو بن بلائے ہی آ جائیں گے، داد دینے کے لیے، وہ بھی لاٹھیوں اور گھونسوں کے ساتھ۔ مجھے تو ایسا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
سو! اُس وقت شعر سننے والا صرف ایک ہی مظلوم بچتا ہے اُس کا نام ہے “شاعر کی بیوی”۔
اب میں آپ کو اُن شاعر صاحب کے گھر کی بات بتانے لگا ہوں! جن کی بیگم بہت وفادار ، باشعار اور خدمت گزار خاتون تھیں۔ وہ اُن سے بہت پیار کرتی تھیں۔ قدم قدم پر قدم بوسی کے لیے تیار رہتی تھیں۔ مگر اُن کے شعروں کی وجہ سے وہ اپنے سرہانے بیلن رکھ کر سوتی تھیں۔ اسی وجہ سے اتنے پیار کے باوجود کئی دفعہ وہ خُلع لینے تک پہنچ گئیں۔ شاعر صاحب جانتے تھے کہ اُنہیں ایسی بیوی دوبارہ نہیں مل سکتی۔ اس لیے وہ بڑی احتیاط برتتے تھے۔ مگر پھر بھی وہ اُنہیں اپنے اشعار سُنا کر ہی دَم لیتے تھے کئی دفعہ موقعہ پا کر اور کئی دفعہ موقعہ بنا کر۔ اِس کے لیے وہ نِت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے تھے۔
اُس صبح انہوں نے بیگم کو شعر سنانے کا ایک انوکھا طریقہ تخلیق کیا۔ انہوں نے جھوٹ موٹ آنکھیں موند لیں اور سوئے سوئے بند آنکھوں کے ساتھ آہستہ سے کہا “سُنو!”
بس اتنی سی آواز پر وہ مشرقی بیوی جھٹ سے جاگ گئیں، کہنے لگیں “پانی لاؤں”
اُنہوں نے کہا “نہیں”
تھوڑا سا اُن کی طرف سِرکتے ہوئے بولیں “ٹھنڈ لگی ہے؟”
اُنہوں نے کہا “نہیں’
کہنے لگیں “پھر؟”
اُن کے جواب دینے سے پہلے ہی گویا ہوئیں “بتائیں؟ کوئی خدمت!”
اُنہوں نے کہا “خواب آیا ہے”
کہنے لگیں “خیر کا ہے؟”
“! بہت سہانا ، تمہارے متعلق!ہاں ” اُنہوں نے کہا
وہ چاق و چوبند ہو کر بیٹھ گئیں اور بولیں “سنائیں”
(ایسی بیوی کے ساتھ ایسا فراڈ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے)
کہنے لگے “تم اور میں باغ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، پرندے چہچہا رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی بُونداباری سی ہو رہی ہے اور میں تم پر نظم لکھ رہا ہوں لا جواب سی ، بہت ہی کمال کی”۔
وہ سادہ لوح خوش ہو گئیں اور بولیں “یاد ہے کُچھ؟ کیا لکھا تھا!”
اُنہوں نے دل ہی دل میں خوش ہو کر کہا “ہاں! کچھ کچھ”۔
کہنے لگیں “سنائیں”
تو اُنہوں نے اپنی نظم سنانی شروع کی. بہت شوق سے سنتی رہیں اور پھُولے نہ سماتی رہیں کہ اُن کے میاں نے اُن کے لیے شعر تو لِکھے ، خواب میں ہی سہی۔ مگر مصیبت تب نازل ہُوئی جب چار شعر سنانے کے بعد وہ اگلے شعر بھول گئے۔ اِدھر شعر سننے کی بے تابی اُدھر یاد داشت کی خرابی
وہ بولیں “کچھ یاد کریں”
اب اُنھیں یاد نہیں آ رہے تھے۔
پھر بہت پیار سے بولیں “ذہن پر زور دیں! آگے کیا تھا”۔
اب چونکہ وہ بھی سنانے کے لیے بے تاب تھے۔ سارا ڈراما اسی کے لیے تو رچایا تھا۔ اُن کا ہاتھ بے اختیار سیدھا موبائیل پر گیا کیونکہ وہ اُسی میں لکھتے تھے اور اِس بات کا اُن کی بیگم کو علم تھا۔ موبائیل پر ہاتھ جاتا دیکھ کر اچانک وہ سیخ پا ہو گئیں اور اُن کا ہاتھ سیدھا گیا سرہانے پڑے بیلن پر۔۔۔ نہیں! اس سے آگے کی رُو داد تو نہ ہی پوجھیں تو اچھا ہو گا۔ کیونکہ وہ غصے میں بار بار یہی پُوچھتی رہیں کہ صِرف یہ بتا دیں کہ یہ اشعار لکھے کِس ماں کے لیے ہیں۔ وہ بھی وفائے عشق کے پکے نِکلے۔ مجال ہے جو زبان پر اُس کا نام لائے ہوں۔ تھانے کا سا ماحول پیدا گیا۔ تھانے دار بہت تگڑا تھا مگر عاشقوں کو جانتا نہ تھا۔ بار بار انکار کے بعد آخری حربے کے طور پر اُنہوں نے اُن کے شعروں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا جس کی وہ تاب نہ لا سکے۔ ٹُوٹ سے گئے مگر ہار نہیں ماننا چاہتے تھے۔ جوابی کار روائی کے طور پر وہ اپنے اشعار اونچی اونچی زبان میں پڑھنے لگے۔ پھر اگلے حملے کے ڈر سے سخت سردی کے ستم کو کم سمجھتے ہوئے بنا گرم کپڑوں کے ہی گھر سے باہر نکل گئے۔
یہ رُو داد اُن کی کہنہ مشق بیوی کی اُن کے ساتھ فراوانیِ سِتم کی وہ چھلک ہے جس کے اثرات اکثر اوقات دیر پا اور سلسلے دراز ہو جاتے تھے۔ بس یہی اُن کی آپ بیتی ہے اور یہی اُن کے شعروں کے ساتھ ظُلم کی داستان۔
وہ کہتے ہیں ، نہیں ، بلکہ فرماتے ہیں کیونکہ اتنا کچھ سہہ کر بھی پکے رہنے والے عاشق کو “کہتے ہیں” کہنا اُن کی بے ادبی ہے۔ تو وہ فرماتے ہیں کہ اُن کی بیگم کو بھی پورا یقین تھا کہ وہ جاگتے ہوئے اور اپنے ہوش حواس میں اُن کے متعلق کبھی ایسے شعر کہہ ہی نہیں سکتے۔ اُنہیں سزا بھی اسی بات کی مِلی تھی۔
اُن کے اُن اشعار میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
تم نہ جانے کون ہو ، میں سوچتا ہوں بار ہا
کہہ رہا ہے دل ہے میرا کوئی معجزہ ہو پیار کا
تم اوس ہو بہار کی چمک اُٹھے جو پھول پر
بھنورا ہو بے تاب کوئی، کلی کو چُوم لے جو بُھول کر
چشم نم سے دیکھتی نگاہ ہو بے قرار سی
دل کے ساز چھیڑ دے جھلک ہو وہ پیار کی
کلی ہو گلاب کی ، گیت جو گائے جھوم کر
دل کی وہ آواز ہو ، لوٹ آئے جو گھوم کر
نیم خواب سی آنکھ میں وجہ ہو خمار کی
خوشبُو ہو بہار کی ، شفا ہو تم بیمار کی
دن ہو کوئی کِھلا کِھلا یا پھر بھیگی رات ہو
پہیلی ہو پریم کی یا پریت کی کوئی بات ہو
رنگوں کی بارات ہو یا حُسن کی برسات ہو
خدا کا کوئی تحفہ ہو یا جنت کی سوغات ہو
صبح صبح کا نور ہو یا نور کا ظہور ہو
آواز ہو تم عرش کی یا تم کوہ طور ہو
بچے کا کھلونا ہو یا قدرت کا تم کھیل ہو
ہار ہو یا جیت ہو یا آگ پانی کا میل ہو
گیت ہو کوئی بلبل کا یا کوئل کی کوئی کُوک ہو
نغمہ ہو دل سوز کوئی یا گہری سانس کی ہُوک ہو
حسن کا خمار ہو یا عشق کی دعوے دار ہو
دھکتی ہوئی کوئی نار ہو یا برف کی پرستار ہو
اپسرا ہو تم کوئی یا جنت کی کوئی حور ہو
آسمان سے اُتری ہوئی کوئی پری تو ضرور ہو
عشق کی کتاب ہو یا حسن کی آب و تاب ہو
کہانی کوئی نایاب ہو یا قصہ لاجواب ہو
تم نہ جانے کون ہو میں سوچتا ہوں بار ہا
کہہ رہا ہے دل ہے میرا کوئی معجزہ ہو پیار کا
اب یہ نہ کہئیے گا کہ یہ کہانی کہیں آپ کی اپنی ہی تو نہیں ۔ کیونکہ مجھے اندازے لگانے والے اور بات کو بُوجھ لینے والے لوگ بھی بہت اچھے نہیں لگتے۔