میرے ایک دوست میری شاعری کے بہت مداح تھے ۔ ایک دِن کہنے لگے کہ آپ کی شاعری میں بہت جان ہے آپ مشاعروں میں کیوں نہیں جاتے آپ تو بڑے مشہور ہو سکتے ہیں تو میں نے کہا کہ مجھے تو اپنے کاروبار سے ہی فُرصت نہیں مشاعروں میں کیسے جاؤں ویسے بھی یہ تو جوڑ سے ہیں جو میں نے جوڑے ہوتے ہیں اور جو لوگ شاعری کرتے ہیں وہ تو کمال کرتے ہیں
کہنے لگے نہیں نہیں آپ کسرِ نفسی سے کام لے رہے ہیں ۔ اُن کی باتیں سُن کر اُوپر سے میں نہ نہ کر رہا تھا اوراندر سے خوش ہو رہا تھا۔ پھر کہنے لگے کہ میرے اور میرے دوستوں کے سوشل میڈیا پر کچھ گروپ ہیں بلکہ کچھ چینل بھی ہیں میں اُن سب میں آپ کی شاعری شئر کروں گا اور پھر آگے کے آگے لوگ خود ہی آپ کو شئر کرتے جائیں گے۔ آپ تو راتوں رات مشہور ہو جائیں گے
یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے مگر میرے دماغ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا گئے۔ میں تو ہواؤں میں اُڑنے لگا۔ اب میں پہلے والا انسان نہیں تھا میرے خیال میں تھا کہ آج رات یہ میری شاعری شئر کر دیں گے اور آنے والی صبح مجھے ہر کوئی جانتا ہو گا۔
یہ جمعے کی شام تھی اگلا دِن ہفتے کا اور پھر اتوارکی چھٹی ۔ دو دِن سب لوگ میری ہی شاعری پڑھیں گے۔ اُس رات مجھے نیند نہ آئی۔ اگلے دن ہفتے کے روز میں نے سارا دن بازار میں گزارا ایک نیا سُوٹ خریدا حالانکہ سردی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی نئے جُوتے خریدے اچھی سی ایک ٹائی لی اور چند اور ضروری چیزیں خریدیں۔ دورانِ خریداری مجھے کئی دفعہ لگا کہ کچھ لوگ مجھے غور سے دیکھ رہے ہیں مگر میں انجان بن کر اپنے کام میں مصروف رہا۔ مجھے لگا کہ میری شاعری اُنہوں نے سوشل میڈیا پر پھیلا دی ہے۔
شام ہونے کو تھی مگر بہت سا کام ابھی رہتا تھا۔ سب سےپہلے میں باربر کی دکان پر گیا بالوں کی کٹنگ کرائی پھر گاڑی کو فُل سروس کروایا حالانکہ عام طور پر میں واش ہی کرواتا ہوں
رات کافی دیر تک جاگتا اور سوچتا رہا اور خوش بھی ہوتا رہا۔ صبح ایک حسیں خواب سے بیدار ہوا جس میں لوگوں نے مجھ سے آٹو گراف لینے کے لیے مجھے گھیرے میں لیا ہوا تھا ۔ میں کافی دیر تک اِسی سحر میں کھویا رہا۔
پھرمیں جلدی جلدی تیار ہوا۔ نیا سُوٹ پہنا ، ٹائی لگائی، گاڑی نکالی اور لبرٹی مارکیٹ کی طرف چل دیا ۔ مجھے لگتا تھا کہ لوگ مجھے دیکھیں گے تو پہچان لیں گے۔
میں کافی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتا رہا لوگ مجھے دیکھ بھی رہے تھے مگر کچھ خاص بات نہیں تھی۔
پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ وہ میرے دوست تو گلشن راوی میں رہتے ہیں ۔ ضرور اُنہوں نے مجھے اپنے علاقے میں ہی مشہور کیا ہو گا ۔ لہذہ میں نے گاڑی کا رُخ گلشن راوی کی طرف موڑ دیا ۔ وہاں پہنچ کر میں نے گاڑی ایک مارکیٹ کے قریب روک دی کیونکہ وہاں کافی لوگ کھانے پینے کی اشیا خرید رہے تھے۔
گاڑی رکی دیکھ کر ایک شخص میری طرف دیکھنا شروع ہو گیا ۔ میں سمجھ گیا کی یہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں بھی انجان بن کر اپنے موبائیل کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے لگا کہ ایک دم سے وہ میرا نام لے گا اور سب لوگ میری طرف آجائیں گے۔ مگر وہ شاید پہلے اپنی تسلی کرنا چاہتا تھا۔میں بھی کبھی کبھی اُس کی طرف کن اکھیوں سے دیکھ لیتا تھا۔ پھر اُس نے میری طرف ٹکٹکی باندھ لی ۔ پھر جب میں نے ایک لمحے کے لیے اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے مجھے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔ اب وہ مجھے پہچان چکا تھا ۔ جوابا” میں بھی ہلکا سا مسکرا دیا۔ اُس کے قدم آہستہ آہستہ میری طرف اُٹھنے لگے۔ اور دل دھڑک کر باہر آنے لگا۔ وہ مسکراتا ہوا میری گاڑی کے قریب آکر کھڑا ہو گیا ۔ اُس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی کاپی نکالی اور میں نے آٹو گراف دینے کے لیے اپنی جیب سے پین۔ میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تو مسکراتے ہوئے بولا۔ زنگر یا انڈہ شامی۔
میں سٹپٹا کر رہ گیا۔ مگر ایک دم سنبھل کر بولا انڈہ شامی۔ جب وہ برگر لے کر آیا تو میں نے اُسے اچھی سی ٹِپ بھی دی ، گاڑی واپس اپنے گھر کی طرف موڑی اور ریڈیو آن کر لیا جس پر کوئی غالب کی غزل بہت ترنم سے پڑھ رہا تھا ۔
بڑے بے آبرو ہو کے تیرے کُوچے سے ہم نِکلے
وہی سنتے سنتے میں گھر واپس آرہا تھا کہ موبائیل پرایک نوٹیفیکیشن آیا۔ دیکھا تو اردو کے ایک گروپ میں کسی نے لکھا تھا کہ کوئی اِس محاورے کا مطلب سمجھا دیں ۔
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
تو میں نے سوچا کہ آج کی اپنی ہی رُوداد لکھ کر بھیج دیتے ہیں ، میرے تجربے سے ہی سمجھ جائیں گے اگر نہیں تو خود اپنا تجربہ کر لیں۔
1 Comment
This great story humorously captures the excitement and reality of fame.