شعر تو وہ ہے جس کے الفاظ ایسے ہوں کہ جیسے پھول چُنے ہوئے، موتی سمیٹے ہوئے ، ہیرے تراشے ہوئے اور ترتیب ایسی کہ لڑی میں پروئے ہوئے مالا میں سموئے ہوئے یا سونے میں جڑے ہوئے۔ خوبی ایسی کہ خوشبو بکھیرتے لہلہاتے ہوئے ، روشنی پھیلاتے ہوئے ، جگمگاتے ہوئے
لفظ کے ساتھ لفظ اس طرح ہم آہنگ ہو کہ ایک بھی لفظ نہ سنانے والے کی زبان میں اٹکے اور نہ سننے والے کے کان کو کھٹکے۔
سیدھا دل میں اتر جائے اُس کی گود میں جا بیٹھے جس کو کسی نے اپنے دل میں بٹھایا ہوا ہے۔ اُس سے اٹھکیلیاں کرے، اُس سے ایسے ناز کرے کہ وہ اُسے بار بار سُنے ، بار بار پڑھے۔ پھر وہ بھی اُسے اپنے دل میں بٹھا لے تنہائی میں اُس کے ساتھ کھیلے کے لیے۔
شعر دل کی کسی خاص کیفیت سے نکلتا ہے اور یہ اپنی پزیرائی کے لیے کسی اور دل میں ویسی ہی کیفیت ڈھونڈتا ہے۔
یہ دو کیفیات کے درمیان ایک نازک سا رشتہ ہے یا باریک سی ایک ایسی تار ہے جو ذرا سی ہلے تو اتنا سوز و گداز پیدا ہو کہ وہاں موجود ہر چیز ہی بے خود ہو جائے، اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ شعر امر ہو جاتا ہے اور امر ہو کر وہ پرواز کرتا ہے آسمانوں کی طرف۔ اور اُس کی پرواز اتنی ہوتی ہے کہ وہ سیدھا عرشِ معلیٰ تک جا پہنچتا ہے کیوں کہ وہ آتا بھی وہیں سے ہے۔