میرے ایک دوست کے دل کا اپریشن ہوا تو مجھے بہت تشویش ہوئی۔ جب وہ صحت یاب ہو کر آپنے گھر آ گئے تو میں نے اُن کے دل کے مرض کی وجوحات جاننے کے لیے اُن سے چند ایک سوالات کیے جن کا جواب اُن کی مسکراہٹ نے دیا۔ وہ سوالات مندرجہ ذیل ہیں۔
۔۱ – آپ کو دل کا مرض کس عمر میں لاحق ہوا تھا
۔۲ – دل کا معاملہ کتنی دیر تک چلتا رہا
۔۳ – اگر دل کا معاملہ تھا تو آپ دوستوں سے چھپاتے کیوں رہے؟
۔۴ – اب جو دل میں درد ہوا ہے کیا یہ اُسی نے دیا ہے جسے آپ نے اپنے دل میں بٹھایا ہوا تھا ہا کسی اور نے؟
۔۵ – کیا آپ نے یہ دیکھنے کے لیے تو دل کا اپریشن نہیں کروایا کہ آپ نے جسے دل میں بٹھائا ہوا تھا وہ اب دل میں ہے بھی یا نہیں؟
۔۶ – کیا وہ آپ کو دل کے کسی کونے میں ملا یا نہیں؟
۔۷ – کیا آپ نے کسی کو دل سے نکالنے کے لیے تو اپریشن نہیں کروایا؟
۔۸ – کیا اُسے پتا ہے جس کے لیے آپ نے دل کا اپریشن ہی کروا لیا؟
۔۹ – جب اپریشن ہوا تو کیا سینے میں دل تھا بھی یا نہیں؟
۔۰ا – اگر ہے تو کیا یہ دل ابھی بھی اُسی کے لیے دھڑکتا ہے؟
جب وہ ہسپتال میں اپنے کمرے میں آئے تھے تو میں نے اُن کے بیٹے کو فون کر کے خیریت پوچھی اور کہا کہ بات کرنا شروع ہو گئے ہیں؟ وہ بولے میں نے آج ایک دو لوگوں سے بات کرائی ہے تو میں نے کہا کہ ایک سے اور کروانی ہے تو وہ بولے کس سے؟ تو میں نے کہا کہ تم کچھ دیر کے لیے فون اُن کے ہاتھ میں پکڑا کر کمرے سے باہر چلے جانا وہ خود ہی کر لیں گے اور اُن سے بات کر کے اُن کے زخم بھی جلدی بھر جائیں گے۔ مگر یہ بات اپنے گھر میں کِسی اور کو نہ بتانا کیونکہ کِسی اور کو بتانے سے اِن زخموں پر اُلٹا اثر پڑسکتا ہے اور یہ پھر سے ہرے ہو سکتے ہیں۔
سب دوستوں سے گزارش ہے کہ جس کسی کے بھی دل کا معاملہ اُسے درپیش آئے وہ دوستوں سے نہ چھُپائے ، بلکہ سب کو بتائے اور اُس کی پُوری تفصیل فیس بُک پر لگائے بلکہ انٹرنیٹ پر چڑھائے ، محلے داروں کو بتائے ، ہو سکے تو مسجد میں اعلان کروائے اپنی ذمہ داری پر۔ اگر امید کے بر عکس کچھ ہو تو اپنی قسمت کو ذمہ دار ٹھرائے مقدر کو بھی بیچ میں ڈالے اور تقدیر پر ایمان لائے۔ لوگوں پر الزام نہ لگائے۔